نئی دہلی، یکم دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے 30 نومبر کو ایک بیان میں کہا کہ سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے عبادت گاہوں کے قانون سے متعلق دیے گئے بیانات نے ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں مختلف مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بیانات ایک ایسا معاملہ کھولنے کا سبب بن سکتے ہیں جو مستقبل میں مسلسل مشکلات کا سبب بنے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مئی 2022 میں گیانواپی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس چندر چوڑ نے عبادت گاہوں کے قانون کے تناظر میں کہا تھا کہ یہ قانون 15 اگست 1947 کے بعد کسی ڈھانچے کے مذہبی کردار کو تبدیل کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ جس کی وجہ سے حالیہ دنوں میں اس معاملے کو لے کر ہنگامہ بڑھ گیا ہے۔
جے رام رمیش نے راجیہ سبھا میں 1991 میں عبادت گاہوں کے بل پر ہوئی بحث کا حصہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس بحث کا نتیجہ بعد میں عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے لکھا، "12 ستمبر 1991 کو۔ راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث ہوئی، جو بعد میں عبادت گاہوں کا قانون بن گیا۔ اس بحث کے بارے میں جے رام رمیش نے یہ بھی بتایا کہ فی الحال اس موضوع پر جسٹس چندر چوڑ کے بیان نے اسے دوبارہ بحث میں لا دیا ہے۔
کانگریس لیڈر نے یہ بھی کہا کہ اس پارلیمانی بحث کے دوران راج موہن گاندھی نے ایک متاثر کن تقریر کی تھی، جو شاید راجیہ سبھا کی تاریخ کی سب سے بڑی تقریروں میں سے ایک تھی۔ راج موہن گاندھی اس وقت پارلیمنٹ کے رکن تھے اور انہوں نے اس موضوع پر بہت پر اثر تقریر کی تھی۔ ہوئے جے رام رمیش نے کہا کہ یہ تقریر آج بھی وقت کی کسوٹی پر کھڑی ہے۔
عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991 ہندوستان میں مذہبی مقامات اور ان کے مذہبی کردار کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم قانون ہے۔ یہ قانون خاص طور پر 15 اگست 1947 کو ہندوستان میں آزادی سے قبل ایک مخصوص مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے مذہبی مقامات کے متعلق تنازعات کو حل کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ایک شق ہے کہ آزادی کے بعد کسی بھی مذہبی مقام کے مذہبی کردار میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کا مقصد مذہبی مقامات کو سیاسی اور سماجی تنازعات سے بچانا تھا۔